Skip to content →

Hazrat Ali ibn Abi Talib – a Sunni point of view (Urdu)

Ali ibn Abi Talib, karrama Allahu wajhahu (May Allah honour his face), the fourth caliph according to the Sunnis and the first Imam according to the Shiis, was the closest person to the Prophet of Islam (pbuh). He is highly revered by the Sunnis. This paper, written in Urdu for the Ali Conference held by Anjuman Yadgar-e Anees at Delhi on 18 June, argues that if Ali ibn Abi Talib had been elected as the first caliph, the course and strength of Islam would have been much different and there would have been no problem of Shia-Sunni discord which has harmed the Muslim interests over the centuries.

حضرت علی بن ابی طالب کرّم اللہ وجہہ : ایک سنی نقطۂ نظر

 ڈاکٹر ظفرالاسلام خان

zik$zik.in

حضرت علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الشریف جامع کمالات تھے۔وہ نوجوانوںاور مردوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والے تھے ۔ حضرت انس بن مالکؓ کیروایت کے مطابق حضور پاکؐ کی بعثت پیر کے روز ہوئی اور حضرت علی صرف ایک دنبعد یعنی منگل کو ایمان لائے ۔اس وقت آپ کی عمر مشکل سے آٹھ یا دس سالتھی۔

حضرت علی کو دنیا میں فرد واحد ہونے کا شرف حاصل ہے جن کی پیدائش خانہ کعبہکے اندر ہوئی۔اسی وجہ سے ان کو ’’مولود کعبہ‘‘ بھی کہاجاتا ہے ۔اسی طرححضرت علی حضور پاک اور سیدہ خدیجہؓکے ساتھ نماز پڑھنے والے اول شخص تھے۔

چونکہ حضور پاک کے چچا حضرت ابوطالب کثیر العیال تھے، اس لئے حضور پاک ﷺ نےحضرت علی کو گود لے لیا تھا اور آپؐ ہیکے سایۂ عاطفت میں حضرت علی کیپرورش ہوئی۔جب حضور پاک ؐ مدینہ جانے پر مجبور ہوئے تو ان کی چارپائی پرحضرت علی ہی سوئے۔ روایا ت میں آتا ہے کہ حضور پاک نے ہجرت کے قبل اسوقت مکہ میں موجود صحابہکرام سے پوچھا کہ میرے بستر پر کون سوئے گا تو کسی نے جواب نہیں دیا ما سواحضرت علیکے جنہوں نے تین بار کہا کہ میں ’’سوؤں گا‘‘۔ قریش حضور پاک کوقتل کرنے کاقطعی منصوبہ بناچکے تھے۔ایسے حالات میں حضرت علی کا یہ فیصلہ انکی حضور پاک ؐ سے انتہائی محبت اور ان کے لئے جان دینےکے لئے تیار رہنےکی دلیل تھا۔

حضرت علی نے حضور پاک کی ہجرت کے صرف تین دن بعدمدینہ ہجرت کی۔ آپ کے ساتھہجرت میں خاندان قریش کی تین ’’فاطمائیں ‘‘ بھی شریک تھیں: فاطمہ بنت اسد،فاطمہ بنت محمدؐ اور فاطمہ بنت الزبیر۔اسی لئے اسے ’’فاطماؤں کا قافلہ) ‘‘رکب الفواطم) کہا جاتا ہے۔ یہ لوگ رات کو چلتے اور دن میں کہیں چھپ جاتے۔یوں حضرت علی مدینہ کے پاس کی بستی قباء پہنچے جہاں حضور پاک ﷺ ان کاانتظار کررہے تھے۔ اس سفر میں حضرت علی، جن کی عمر اس وقت ۲۲سال تھی، کےپیر سوج گئے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔حضور پاک ﷺ ان کو اپنے گھر لےگئے ۔ انصارومہاجرین کی مواخات کے بر عکس حضور پاک نے حضرت علی کواپنابھائی بنایا، یعنی دونوں بھائی مہاجر تھے۔ حضور پاک نے اس موقعے پر حضرتعلی سے کہا: ’’انت اخی فی الدنیا والآخرۃ‘‘(تم دنیا اور آخرت دونوں میںمیرے بھائی ہو)۔

اگلے سال حضور پاکؐ نے حضرت علی کو اپنا داماد بھی بنا لیا ۔ یوں وہ سیدۃنساء الجنۃ) جنت کی خواتین کی سردار)کے شوہر بھی ہوئے اور سیدا  شباب اہلالجنۃ  (جنت کے نوجوانوں کے سردار) حضرت حسن وحسین کے والد ماجد بھی ہوئے۔خیبر جب فتح نہیں ہوپارہا تھا تو حضرت علی نے ہی اسے فتح کیا اور ’’اسداللہ‘‘(شیر خدا) کے لقب سے موسوم ہوئے۔ وہتمام غزوات میں شریک رہے ماسوائے غزوۂ تبوک کے جس کے دوران آپ کو مدینہ میں حضور پاک ﷺ نے نائب کیحیثیت سے متعین کیا۔

غزوۂ بدر میں پہلے نکلنے والے تین کافر سورماؤں میں سے ایک کو آپ نے واصلجہنم کیا۔ غزوۂ خندق میں عرب کے مشہور پہلوان عمرو بن عبدوُدّ نے جب خندقپار کرکے مسلمانوں کو للکارا: ’’ہل من مبارز؟‘‘ (ہے کوئی مجھ سے لڑنےوالا؟) تو حضرت علی نے ہی اس کا چیلنج قبول کیا اور اس کی گردن اڑائی۔ غزوۂخیبر میں یہودی پہلوان مرحّب کا سر بھی آپ نے ہی قلم کیا۔فتح مکہ کے بعدحضور پاک نے خانۂ کعبہ کے اندر اور باہر بتوں کے بڑے بڑے اڈوں کو توڑنے کاکام بھی حضرت علی کو دیا۔

حدیث مبا ہلہ اور حدیث کساء میں آیا ہے کہ حضور پاکؐ نے فرمایا کہ علی،فاطمہ، حسن اور حسین ان کے اہل بیت یعنی خاندان والے ہیں۔ ۱۸؍ذی الحجہ سنہ۱۰ھ کو حجۃ الوداع کے بعد مدینہ واپس آتے ہوئے حضور پاک ؐ غدیر خم (خم کاکنواں ) کے پاس رکے اور وہاں فرمایا: ’’من کنت مولاہ فعلی مولاہ‘‘ (میں جسکا دوست ہوں ، علی بھی اس کے دوست ہیں)۔اس حدیث پاک سے کسی کو انکارنہیں۔ہمارے شیعہ بھائی اس حدیث کو حضرت علی کے امام وخلیفہ ہونے کا اعلانسمجھتے ہیں جبکہ اہل سنت اس کو حضرت علی کی عظمت اور حضور پاک ﷺ سے انتہائیقربت کا اعلان سمجھتے ہیں۔

حضور پاک ؐ نے فرمایا:’’ انا مدینۃ الحکمۃ وعلیّ بابہا ‘‘(میں حکمت کا گھر ہوںاور علی اس کے دروازے ہیں)۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو حضور پاکﷺ نے ’’افقہالناس ‘‘اور ’’اقضی الناس‘‘ کہا تھا یعنی دین کو سب سے زیادہ سمجھنے والااور سب سے زیادہ عدل وانصاف کرنے والا۔ حضور پاک نے یہ بھی فرمایا کہ ’’علیسے کوئی منافق محبت نہیں کرسکتا اور ان سے کوئی مؤمن بغض نہیں کرسکتا‘‘ ۔حضرت سعید الخدریؓکا کہنا ہے کہ ’’ہم انصار لوگ منافقین کوحضرت علی سےان کی نفرت کی وجہ سے پہچان لیا کرتے تھے‘‘۔آپ کرم اللہ وجہہ کے بارے میںحضور پاکﷺ نے فرمایا : ’’اے علی ! تیری وجہ سے دو گروہ جہنم میں جائیںگے۔ایک تیرے ساتھ محبت میں غلو کرنے والا اور دوسرا تیرے ساتھ دشمنی میںغلو کرنے والا‘‘۔

جب خارجیوں نے آپ کا نام بگاڑنا چاہا تو مسلمانوں نے حضرت علی کو ’’کرّماللہ وجہہ‘‘ (اللہ آپ کے چہرے کو باعزت کریں) کے لقب سے پکارنا شروع کر دیاجو کہ صحابہ کرام میں سے صرف حضرت علی کے لئے مخصوص ہے۔’’کرم اللہ وجہہ‘‘کے لقب کی ایک توجیہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ حضرت علی نے کبھی کسی بتکی پوجا نہیں کی۔ انہیں خارجیوں میں سے ایک شخص عبدالرحمٰن بن ملجم نے حضرتعلی کو ۱۷رمضان المبارک سنہ ۴۰ھ میں زہریلی تلوار سے حملہ کرکے شہیدکردیا۔ آپ اس زخم سے جانبر نہ ہو سکے اورچوتھےروز۲۱رمضان المبارک کو وفات پائی۔

آپ کرّم اللہ وجہہ صحابہ کرام میں سب سے بڑے عالم، سب سے بڑے فقیہ اور سبسے فصیح شخص تھے ۔اس بات کی گواہی نہج البلاغۃ کا ایک ایک جملہ دیتا ہے۔سوائے  سلسلہ نقشبندیہ کے ، باقی تمام صوفی مذاہب حضرت علی پر جاکر ختم ہوتے ہیں ۔دوسرے لفظوںمیں تقریبا تمام صوفی طریقے آپ سے ہی شروع ہوتے ہیں۔

حضرت علی نے ساری زندگی عیش وعشرت پر فقروفاقہ کو ترجیح دی حالانکہ اسلاممیں داخل ہونے والوں میں سابقین واولین کی حیثیت رکھنے کی وجہ سے آپ کو بیتالمال سے حضور پاک کے چچا حضرت عباس کے بعد سب سے زیادہ وظیفے کی رقم ملتیتھی۔ روایات میں آتا ہے کہ بعض سالوں میں آپ نے صرف زکوٰۃمیں ۴۰ہزار دینارخرچ کئے اور اللہ پاک کے حکم کہ ’’قل العفو‘‘، یعنی جو تمہاری ضرورت سےبچ جائے اسے خرچ کرو ،کی تعمیل میں آپ جلد از جلد اپنی دولت خیرات وصدقاتمیں خرچ کردیتے۔

حضور پاک کے انتقال کے بعد خلافت کے لئے سب سے مناسب اور سب سے زیادہ حقدارحضرت علی ہی تھے ۔اگر وہ اس وقت خلیفہ بن گئے ہوتے تو امت کو حضور پاک کےبعد۳۰سال متواتر ایک بہترین حاکم نصیب ہوا ہوتا جس کی وجہ سے وہ بہت ساخلفشارپیدا نہ ہوتا جس کی ابتدا حضرت عثمان کے زمانے سے شروعہوئیاور جسکے اثرات آج تک باقی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر حضرت علی خلیفۂ اول ہوگئےہوتے تو شیعہ سنی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہوتا جس کی وجہ سے عالم اسلام میںصدیوں خلفشار رہا ہے اور آج بھی ہے۔

بہر حال تاریخ کے واقعات بہت سے عوامل کی وجہ وقوع پذیرہوتے ہیں جن کے بارےآج ہم تبصرہ ہی کرسکتے ہیں، بدل نہیں سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ حضرت علی کےحق خلافت کونظر انداز کیا گیالیکن اس کے باوجود انہوں نے اپنے سے پہلےتینوں خلفاء کے ساتھ عمدہ سلوک روا رکھا اور سب کے معین ومشیر رہے۔ حضرتابوبکرؓ کے زمانے میں آپ اموال خمس کی تقسیمکے متولی تھے اور مرتدین کیسرکوبی کے لئے بھیجی جانے والی فوج کے قائد بھی۔ اسی طرح حضر ت علی نے حضرتعمر الفاروقؓکے عہد خلافت میں حکومت وقت کے ساتھ پورا تعاون کیا بلکہقاضئ مدینہ کا عہدہ بھی سنبھالا اور جو آج چیف جسٹس کے برابر ہے۔ حضرتعثمان ذی النورینؓکے زمانے میں بھی آپ کا تعاون برقرا رہا یہاں تک کہ سنہ۳۵ھ میں آپ چوتھے خلیفہ بنے اور اگلے پانچ سال تین ماہ تک خلیفہ رہے۔

خلافت قبول کرنے کے تیسرے ہی روز حضرت علی نے سبائی سازشی ٹولہ کو مدینہ سےنکلنے کا حکم دیا، جس کی وجہ سے وہ حضرت علی کی جان کے دشمن ہوگئے۔یہ وہیلوگ ہیں جن کے خلاف حضرت علی کو لڑائیاں لڑنی پڑیں حالانکہ اگر انھیں امنوسکون میسر ہوا ہوتا تو عالم اسلام کا رقبہ پہلے سے کہیں زیادہ وسیعہوجاتا۔ یہی سبائی ٹولہ بعد میں نواصب یا خوارج کے نام سے معروف ہوا اور آجکے القاعدۃ اور الدولۃ الاسلامیہ(ISISیاداعش) کے دہشت گرد انہیں کیناجائز اولاد ہیں جنہوں نے اسلام ، مسلمانوں اور عالم اسلام کو بدنام اورتباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔

حضور پاکؐ کے انتقال کے بعد پہلے سعد بن عبادۃ انصاری نے خلیفہ ہونے کادعویٰ کیا لیکن پھر حضرت ابوبکرؓ پر اکثر صحابہ کا اتفاق رائے ہوا۔ حضرتعلی اور ان کے کچھ مؤید صحابہ کا خیال تھا کہ حضرت علی خلافت کے لئے موزوںترین شخص ہیں لیکن افسوس ہے کہ ایسا نہیں ہوسکا۔ اگر ایسا ہوگیا ہوتا تواسلام کی تاریخ بہت مختلف ہوتی کیونکہ حضرت علی کو مسلسل تیس سال حکومتکرنے کاموقعہ ملتا اور شیعہ سنی کا مسئلہ بھی نہیں پیدا ہوتا حالانکہشیعہ اور سنی دونوں حضرت علی کومانتے ہیں اور ان کی عظمت واولیت واسبقیت کوتسلیم کرتے ہیں۔

بہرحال اہل سنت کی روایتوں میں آتا ہے کہ حضرت علی نے اس صور ت حال کوقبولکیا ۔ ممتاز شیعہ عالم محمد حسین کاشف الغطاء نے اپنی کتاب ’’اصل الشیعۃواصولہا‘‘ میں لکھا ہے کہ حضرت علی نے اپنے سے پہلے تینوں خلفاء سے بیعتکی، ان کے ساتھ ہاتھ بٹایا اور ان کے مشیر کے طور سے کام کرتے رہے۔ابنالاثیر کی کتاب الکامل فی التاریخ میں ذکر ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میںحضرت علی مدینہ منورہ کے قاضی یعنی آج کے لحاظ سے چیف جسٹس تھے۔یہ سلسلہحضرت عمر کی خلافت کے دوران بھی جاری رہا۔حضرت علی نے حضرت ابوبکر کےانتقال کے بعد ان کی بیوہ حضرت اسماء بنت عمیس سے شادی کی اور حضرت ابوبکرکے بیٹے محمد بن ابی بکر کی کفالت بھی کی جو حضرت علی کے بہت بڑےمؤیدومددگار بنے اور حضرت علی نے ان کو مصر کا گورنر بنایا۔

جب حضرت عمر بیت المقدس کو فتح کرنے کے لئے گئے تو حضرت علی کو مدینہ کاگورنر بنا کرگئے۔حضرت عمرؓ امور سلطنت کے معاملات میں حضرت علیؓ سے مشورےکرتے تھے۔ اسی سلسلے میں حضرت عمرؓ کا ایک قول مروی ہے:’’ لولا علی لھلکعمر‘‘ (اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوگیا ہوتا)۔حضرت عمرؓ سے یہ بھی روایتہے کہ انہوں حضرت علی سے کہا: ’’اعوذ باللہ ان اعیش فی قوم لست فیہم یاابا الحسن‘‘ (اے حسن کے والد! میں اللہ سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں ایسےلوگوں میں زندگی گزاروں جن میں آپ نہ ہوں)۔

ابن الاثیر کی تاریخ الکامل اور انھیں کی دوسری معروف کتاب اُسدُ الغابۃمیں آیا ہے کہ حضرت عمر نے حضرت علی کی بیٹی ام کلثوم سے شادی کی۔ حضرت عمرنے فدک اور خیبر کے باغات بھی حضرت علی، حضرت عباس اور بنی ہاشم کو واپسکردئے۔اپنے انتقال کے وقت حضرت عمر نے اپنے بعد جن چھ لوگوں کا نام لیا کہان میں سے ایک کو اگلا خلیفہ بنایا جائے، ان میں حضرت علی کا نام شامل تھا۔لیکن حضرت علی نے حکم (ثالث ) عبدالرحمٰن بن عوفؓ کی یہ شرط ماننے سےانکار کردیا کہ وہ یہ عہد کریں کہ ’’اللہ ، اس کے رسول اور ابوبکر وعمر کیاتباع کریں گے‘‘، جبکہ حضرت عثمان نے یہ بات مان لی اور ان کو خلیفہ بنادیا گیا۔بعد میں کچھ تردد کے بعد حضرت علی نے حضرت عثمان سے بیعت کرلی لیکنجلد ہی ان کے خدشات صحیح ثابت ہوئے اور حضرت عثمان کے زمانے میں بنو امیہکا حکومت کے معاملات میں عمل دخل بہت بڑھ گیا جس کی وجہ سے پہلی دفعہاسلامی سلطنت میں خلفشار پیدا ہوا اور باغی کوفہ، بصرہ اور مصر سے حضرتعثمان کو معزول کرنے کے لئے مدینہ پہنچ گئے۔اس درمیان حضرت علی نے حکم یعنیثالث کا رول ادا کیا ۔لیکن حالات بگڑتے چلے گئے، جن کی تفصیل کا یہاں موقعنہیں ہے، اور بالآخرباغیوں نے چالیس دن کے محاصرے کے بعدحضرت عثمان کو قتلکردیا۔روایتوں کے مطابق حضرت علی کو حضرت عثمان کی شہادت سے بہت دکھ ہوااور انہوں نے اپنے بیٹوں اور دوسرے ہمنوا صحابہ سے بازپرس کی کہ وہ حضرتعثمان کو کیوں نہیں بچاسکے۔

حضرت عثمان کی شہادت کے اگلے دن مدینہ میں حضرت علی کا انتخاب بطور چوتھےخلیفہ کے ہوا۔ لیکن یہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب سلطنت کے بعض حصے (مثلا مصرجس کے گورنر عمروبن العاصؓاور شام جس کے گورنر معاویہ بن ابی سفیان تھے)مدینہ کی اطاعت سے نکل چکے تھے اور عملا باغی اور خود مختارہوچکے تھے۔حضرت علی نے مختلف علاقوں کے گورنر بدلنے شروع کئے لیکن مصر اور شام میں وہکامیاب نہ ہوسکے۔ اور جلد ہی چند ماہ میں جنگ جمل سنہ ۳۶ھجری میں ہوئی جسمیں حضرت علی کے مخالفین حضرت عثمان کے قاتلوں کے قصاص کا مطالبہ کررہےتھے۔ یہ ایسے وقت میں ہوا جب حضرت علی شام کے خلاف جنگ کی تیار کررہے تھے۔جنگ جمل میں مخالفین کی شکست فاش ہوئی ،اس کے قائدین طلحہ اور الزبیرقتلہوئے اور حضرت عائشہ کو مدینہ واپس جانا پڑا۔اس غلطی پر حضرت عائشہ کواتنی ندامت ہوئی کہ انھوں نے وصیت کی کہ مرنے بعد ان کو حضور پاک کی قبرمبارک کے پاس دفن نہ کیا جائے۔

حضرت علی حضرت عثمان کے قاتلوں سے بدلہ لینا چاہتے تھے لیکن اندرونی حالاتاتنے خراب تھے کہ فوری طور سے کارروائی کرنے کا مطلب خانہ جنگی تھا۔ جنگجمل کے بعد حضرت علی نے دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل کردیا کیونکہ وہاںان کے بہت سے مؤیدین تھے اور وہ جگہ اس وقت کی سلطنت اسلامیہ کے وسط میںواقع تھی۔

شا م میں حضرت عثمانؓ کے بنائے ہوئے گورنر معاویہ بن ابی سفیان نے حضرت علیسے بیعت کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ شام کے لئے حضرت علی کے تعیین کردہگورنر (سہل بن حنیف ) کو نہ صرف ماننے سے انکار کردیا بلکہ حضرت عثمان کےقاتلوں سے قصاص لینے کے نام پرانھوں نے اپنے مؤیدین کو بھی جمع کرلیا۔ حضرتعلی نے مصالحت کی کوششوں کے نا کام ہونے کے بعد اپنی فوج کے ساتھ شام کیطرف کوچ کیا اور صفین کے مقام پر تقریبا سودن مصالحت کی کوشش کی جس کے بعدمجبورا جنگ ہوئی جس میں حضرت علی کی فوج جیتنے لگی ۔ایسے موقعے پر معاویہکی فوج نے نیزوں پر قرآن اٹھاکر تحکیم کا مطالبہ کیا۔ حضرت علی اس دھوکے کےخلاف تھے لیکن اپنے کچھ ساتھیوں کے اصرار پر انہوں نے اس کو قبول کرلیا۔تحکیم میں دھوکے سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاویہ توشام کے گورنر بنے رہے جبکہ حضرت علی کی فوج میں خلفشار پیدا ہوگیا اورتحکیم کے مسئلے کو لے کرتحکیم کے مؤیدین کی تکفیر شروع ہوگئی۔نتیجۃً کافیلوگ حضرت علی کی فوج کو چھوڑ کر چلے گئے۔ یہ لوگ ’’خوارج ‘‘یعنی باغیکہلائے جنہوں نے بعد میں سلطنت اسلامیہ کی بنیادیں کمزور کرنے میں بڑا رولادا کیا۔ باطل کایہ سب کام’’ اسلام‘‘ کے نام پر ہورہا تھا،بالکل ویسے ہیجیسے آج کے خوارج (القاعدۃ اور داعش وغیرہ) اسلام کے نام پر اسلام اورمسلمانوں کی جڑیں کھود رہے ہیں۔

مسلمانوں اور خوارج کے درمیان متعدد جنگیں ہوئیں مثلا معرکۂ نہروان (سنہ۳۹ھ؍659ء)۔ اس خانہ جنگی کے باوجود حضرت علی کے زمانے میں بہت سے اہم کامہوئے مثلا پولیس کا محکمہ قائم ہوا، جیلوں کا قیام عمل میں آیا اورکوفہ میںفقہ ونحو کے مدرسے قائم ہوئے۔ حضرت علی کے حکم سے ابوالاسود الدؤلی نےپہلی بار قرآن پاک کے حروف کی تشکیل کی یعنی زیر وزبر وغیرہ لگایا تاکہقرآنپاک پڑھنے میں آسانی ہو۔ حضرت علی نے پہلا اسلامی درہم بھی جاری کیا۔

اسی خانہ جنگی کی حالت میں عبدالرحمٰن بن ملجم نامی ایک خارجی نےحضرت علی پر نماز پڑھتے ہوئے مسموم تلوار سے حملہ کردیاجو جان لیوا ثابت ہوا۔ ایسی حالت میں بھی حضرت علی نے عدل وانصاف کو ہاتھسے نہیں جانے دیا بلکہ حکم دیا: ’’ابصرو ا ضاربی! اطعموہ منطعامی ۔و اسقوہمن شرابی۔النفس بالنفس۔ان ہلکت فاقتلوہ کما قتلنی واِن بقیت رایت فیہ رأیی‘‘( دیکھو میرے اوپر حملہ کرنے والا کون ہے ۔ اس کو میرا کھانا کھلاؤاور میرا پانی پلاؤ۔ نفس کا بدلہ نفس ہوتا ہے ۔اگر میں مر جاؤں تو اسے قتلکردو جیسے اس نے مجھے قتل کیا اور اگر میں بچ گیا تو میں اس کے بارے میں غور کروں گا)۔

حضرت حسن مجتبیٰؓنے حضرت امیر المؤمنین کی تدفین کے موقع پر جو خطبہ دیاوہ آپ کی شخصیت کا ایک مکمل خلاصہ ہے۔ آپؓنے فرمایا: ’’اے لوگو! تم سےایک ایسا شخص رخصت ہوگیا جس سے نہ اگلے علم میں پیش قدمی کرسکیں گے اور نہپچھلے اس کی برابری کرسکے۔رسول اللہ ﷺ اس کے ہاتھ میں جھنڈا دیا کرتے اوراس کے ہاتھ پر فتح نصیب ہوجاتی تھی ۔ اس نے چاندی سونا کچھ نہیں چھوڑا۔اسنے اپنے وظیفے میں سے صرف ۷۰۰درہم ہم ورثاء کے لئے چھوڑے ہیں)‘‘۷۰۰  درہم کے معنی ہیں آج کے ۸۰۱۳۴روپئے)۔ درہم چاندی کا سکہ ہوتا تھا جس کاوزن2.97 گرام تھا جبکہ سابقین اولین میں ہونے کی وجہ سے حضرت علی کوبیت المال سے ہر سال لاکھوں دینار ملتے تھے جو کہ سونے کا سکہ تھا اور ایکدینار کا وزن 4.25گرام تھا یعنی آج (۱۸جون۲۰۱۷ء )کے لحاظ سے ایک دینار کیقیمت۱۲۰۱۴روپئے تھی۔

معروف شیعہ عالم شیخ مفید کے مطابق حضرت علی نے اپنے بڑے بیٹے حضرت حسن کووصیت کی کہ ان کو ایک خفیہ جگہ پر دفن کریں تاکہ دشمن ان کی قبر کی بےحرمتی نہ کرسکیں۔ یوں آپ کی قبر شریف عرصے تک مجہول رہی یہاں تک کہ عباسیخلافت کے دوران حضرت امام جعفر الصادق نے قبر کی جگہ بتادی جس کے بعد نجفاشرف میں قبر شریف پر بڑا مشہد بنایا گیا اور امام علی کی مسجد بنائی گئی۔

اہل سنت اور اہل تشیع دونوں امام علی کے اعلیٰ ترین مرتبے کے قائل ہیں۔احادیث شریفہ کے مطابق حضرت علی عشرۂ مبشرہ میں شامل ہیں یعنی ان دس خوشنصیب لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو ان کی زندگی میں ہی جنت کی بشارت حضور پاکنے دے دی تھی۔ اہل تشیع امام علی کی معصومیت کے قائل ہیں اور ان کو پہلاامام سمجھتے ہیں جبکہ اہل سنت کا یہ موقف نہیں ہے۔ اہل سنت امام علی کو اہلبیت کا حصہ مانتے ہیں اور ان کو خلیفہ رابع سمجھتے ہیں ۔حضرت علی کے خلافلغوباتیں جو بعض کتب میں ہیں ،یا جن کو ان کے مخالفین دہراتے ہیں ،وہ سببنی امیہ کے دور کی ایجاد ہیں جنھیں ان کے تنخواہ دار مورخین اور قصہ گولوگوں نے گھڑااور پھیلایا۔

’’نہج البلاغۃ ‘‘حضرت علی کے اقوال پر مشتمل غیر معمولی حکمت و بلاغت کیکتاب ہے جسے الشریف الرضی نے ترتیب دیا۔ یہ کتاب نہ صرف تشیع اور اسلام کیاہم ترین کتب میں سے ہے بلکہ وہ انسانی علمی اور فکری ذخیرے کا بھی بہت اہمحصہ ہے۔ حضرت علی کے اشعار کا دیوان بھی ’’انوارالعقول من اشعار وصیالرسول ‘‘کے نام سے موجود ہے۔ ان کے اقوال حکیمانہ کو عبدالواحد الآمدی نے’’غرر الحکم ودررالکلم‘‘ میں جمع کیا ہے۔ حضرت علی سے مختلف دعائیں بھیمنقول ہیں جیسے دعاء کمیل ، دعاء الصباحاور دعاء یستشیر۔امام علی کے ہاتھسے لکھے ہوئے قرآن پاک کے تین نسخے آج بھی موجود ہیں جن میں سے ایک صنعاء (یمن )کے میوزیم میں ہے، دوسرا رام پور کی رضا لائبریری میں اور تیسرے نسخےکے اولین بارہ صفحات عراق کے المرکز الوطنی للمخطوطات میں اور باقی نجفاشرف میں واقع مکتبہ امیر المؤمنین میں محفوظ ہیں۔

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے حضرت علی کے قول ’’یا مالک !اِنالناس اِما اَخ لک فی الدین او نظیر لک فی الخلق‘‘ (اے مالک! لوگ یاتوتمہارے دینی بھائی ہیں یا تمہاری ہی طرح پیدا کئے گئے انسان ہیں) کےبارے میں کہا کہ اس عبارت کو تمام تنظیموں کے صدر دفاتر میں لکھ کر ٹانگدینا چاہئے کیونکہ آج انسانیت کومساوات کے اس پیغام کی شدید ضرورت ہے۔ کوفیعنان نے اقوام متحدہ کی قانونی کمیٹی سے بھی یہ بھی درخواست کی کہ وہ حضرتعلی کے خط بنام مالک اشتر کے بارے میں غور کرے۔ چنانچہ مذکورہ کمیٹی نےکئی ماہ غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ خط بین الاقوامی قانون کا ایکمنبع یعنی  Sourceہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ہم سنی ہوں یا شیعہ، ہم سب کے نزدیک امام علی ایک عظیم تریناخلاقی، علمی، سیاسی اور قانونی نمونہ ہیں۔ ہمارے لئے یہ کافی نہیں ہے کہہم سال میں ان کو ایک بار یاد کرلیا کریں بلکہ ان کی عظمت کا حق اسی وقتادا ہوگا جب ہم ان کے پیغام اوران کے اسوہ کو اپنی روزمرہ کی زندگی کا بھیحصہ بنالیں۔ اسی کے ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ماضی کی تلخیوں کوبھول کر ہمیں آج کندھے سے کندھا ملا کر چلنا چاہئے۔ موجودہ دور میں اسلامکو جس چیلنج کا سامنا ہے ،بلکہ اسے مٹانے کی جو سازشیں مغرب ومشرق میں رچیجارہی ہیں، ان کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی ہے۔ ہم کتنے بد نصیب ہونگےاگر ایسے وقت میں بھی آپس میں لڑتے رہیں جب مغرب اورمشرق میں اس کے ہمنواشیعہ اور سنی دونوں اسلام کوختم کرنے کے درپے ہیں۔

(ختم)

Published in Articles Urdu

Comments

Leave a Reply