ڈاکٹر ظفر الاسلام خان
حضرت علیؓ حضور پاک ﷺ کے چچا زاد بھائی تھے اور داماد بھی۔حضرت ابوطالب کے انتقال کے بعد حضور پاک ﷺنے حضرت علی کی کفالت بھی کی ۔ان کی ولادت کریمہ خانۂ کعبہ میں ہوئی ، اس لئے ان کو ’’مولود کعبہ ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔وہ اسلام لانے والوں میں دوسرے یا تیسرے تھے اور نوجوانوں میں پہلے تھے۔حضور پاکﷺ کی ہجرت کی رات وہ آنحضرت کے بستر پر سوئے اور تین روز بعد مدینہ ہجرت کی۔حالانکہ مدینے میں حضورپاکﷺ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کرائی تھی لیکن حضرت علی کے لئے خود اپنی مواخات پسند فرمائی اور ہجرت کے دوسرے سال اپنی سب سے چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ کے ساتھ حضرت علی کا نکاح کیا۔
حضرت علی غزوۂ تبوک کے علاوہ ،جس کے دوران حضورپاک ؐ نے آپ کو مدینہ کا گورنر بنایا تھا، سارے غزوات میں شرکت کی اور داد شجاعت دی۔وہ وحی کے لکھنے والوں میں بھی شامل تھے اور حضور پاکؐنے ان کو اپنا وزیر وسفیر بھی بنایا۔
حضرت علی کی طرف کئی کتابیں منسوب ہیں جن میں نہج البلاغۃ، انوار العقول من اشعار وحی الرسول، غرر الحکم ،درر الکلم اور نہج البردۃ شامل ہیں۔حضرت علی کی طرف دعاء کمیل، دعاء الصباح اور دعاء یستثیر بھی منسوب ہے۔ان کے ہاتھ کے لکھے ہوئے تین قرآن پاک آج بھی موجود ہیں جن میں سے ایک صنعاء کے میوزیم میں ہے، دوسرا رضا لائبریری رام پور اور تیسرے کا ایک حصہ عراق کے المرکز الوطنی للمخطوطات میں اور باقی حصہ النجف الاشرف کے مکتبہ امیر المؤمنین میں محفوظ ہے۔
نھج البلاغۃ
نہج البلاغۃ حضرت علی کے اقوال کا مجموعہ ہے۔اس کو الشریف الرضی رحمۃ اللہ علیہ نے چوتھی صدی ہجری میں ترتیب دیا۔ اس میں ۲۳۸ خطبات، ۷۹ خطوط اور ۴۸۹ اقوال حکمت ہیں۔اس کتاب کے دنیا کی مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے ہیں۔ جو رج جرداق ایک مشہور عیسائی عرب مصنف ہے۔ اس نے اپنی کتاب” روائع نہج البلاغۃ” میں لکھا ہے کہ قرآن پاک کے بعد یہ سب سے زیادہ فصیح کلام ہے۔ معروف مصری عالم اور مفتی مصر شیخ محمد عبدہ (م: ۱۹۰۵ ء) نے کہا کہ : کلام اللہ اور کلام النبی کے بعد حضرت علی کا کلام سب سے بلیغ اور برگزیدہ (اشرف)ہے۔
نہج البلاغۃ سے پہلے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اقوال کے مختلف مجموعات ترتیب دئے جاچکے تھے جیسے زیدبن وہب الجہنی (م:۱۶ھ)کا ترتیب کردہ ’’خطب امیر المؤمنین علیہ السلام ‘‘ ، اسی طرح الاصبغ بن نباتۃ (م:۱۰۰ ھ کے بعد) نے ایک مجموعہ ترتیب دیا تھا۔ نصر بن مزاحم النقری (م: ۲۰۲ھ) ، اسماعیل بن مہران (م:۵۰۲ھ)، الواقدی(م:۷۰۲ھ) اور مسعدۃ بن صدقۃ نے بھی حضرت علی کے اقوال کے مجموعات ترتیب دئے ہیں۔ الخطیب الراؤندی نے ایک حجازی عالم سے روایت کی ہے کہ انہوں مصر میں حضرت علی کے اقوال کاتقریباً (۲۱) اجزاء میں مجموعہ دیکھا ہے۔ یہ بات آقا بزرگ طہرانی نے بھی بیان کی ہے۔ اس طرح کے مختلف مجموعوں کی تعداد (۶۲) بتائی گئی ہے۔
حضرت علی کے اقوال حکمت و دانائی کا مخزن ہیں ۔ علم کی فضیلت کے بارے میں ان کایہ قول ہے:
ایھا الناس اعلموا أنّ کمال الدین طلب العلم والعمل بہ، الا وان طلب العلم أوجب علیکم من طلب المال۔ان المال مقسوم مضمون لکم، قد قسّمہ عادل بینکم وضمنہ۔والعلم مخزون عند أھلہ۔ قد امرتم بطلبہ من أھلہ فاطلبوہ۔
“اے لوگو! یہ بات جان لو کہ علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے ہی دین کامل ہوتا ہے۔ جان لو کہ علم حاصل کرنا تمہارے اوپر مال حاصل کرنے سے زیادہ واجب ہے۔ کیونکہ مال تقسیم ہوچکا ہے اور تمہارے لئے اس کی ضمانت (گارنٹی) ہوچکی ہے کیونکہ ایک انصاف پسند نے اس کو تقسیم کیا ہے اور اس کی ضمانت بھی لی ہے۔ علم علماء کے پاس جمع ہے۔ تم کو حکم دیا گیا ہے کہ علم کو اس کے اہل لوگوں سے حاصل کرو، اس لئے اس کے حصول میں کوتاہی نہ کرو”۔
حضرت علی کے اقوال میں سے یہ بھی ہے:
’’یا مالک! ان الناس اما أخ لک فی الدین أو نظیر لک فی الخلق ‘‘۔
’’ اے مالک ( بن الاشتر)! لوگ یا تو تمہارے دینی بھائی ہیں یاتم جیسی مخلوقات ہیں‘‘۔
اس مقولے کے بارے میں اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی انان نے کہا کہ حقوق انسانی کے مفہوم کو اس سے زیادہ وضاحت سے نہیں بیان کیا جاسکتا ہے، اس لئے اس عبارت کو دنیا کی ساری تنظیموں کے صدر دروازوں پر لکھ کر لٹکادینا چاہئے۔ کوفی عنان نے یہ تجویز بھی پیش کی کہ اقوام متحدہ کی قانونی کمیٹی میں حضرت علی کے خط بنام مالک بن الاشتر پر بحث ہونی چاہئے۔ چنانچہ مذکورہ کمیٹی میں اس مذکورہ خط پر تفصیل سے بات ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ مالک بن الاشتر کے نام حضرت علی کے خط کو بین الاقوامی قانون کا ایک ماخذ مانا جائے۔
نہج البلاغۃ میں مذکور چند حکمت کے اقوال یہ ہیں:
أزری بنفسہ من استشعرالطمع ،ورضی بالذل من کشف عن ضرّہ، وھانت علیہ نفسہ من أمّر علیھا لسانہ۔
“لالچ اپنانے والا خود کو کمتر بناتا ہے۔ جو اپنے عیوب کو کھولتا ہے وہ ذلت پر راضی ہوتا ہے اور جو اپنی زبان کو اپنا سردار بناتا ہے وہ خود کو ذلیل کرتا ہے” ۔
صدر العاقل صندوق سرّہ۔والبشاشۃ حبالۃ المودۃ۔ والصبر قبر العیوب۔
“عاقل کا سینہ اس کے اسرار کا خزانہ ہے۔ بشاشت محبت کا سبب بنتی ہے اور صبر عیوب کو دفن کردیتا ہے”۔
خالطوا الناس مخالطۃ ۔ ان متم معھا بکوا علیکم ،وان عشتم حذروا الیکم۔
“لوگوں سے ملو جلو۔اگر تم مروگے تو لوگ تمہارے لئے روئیں گے اور اگر تم زندہ رہے تو تم سے قریب آئیں گے”۔
اذا وصلت الیکم أطراف النعم فلا تنفّروا اقصاھا بقلّۃ الشکر۔
“اگر نعمت کا ایک سرا تمہارے پاس آئے تو کفران نعمت سے دوسرے سرے کو دور نہ کردو”۔
ماأضمر أحد شیئا الا ظہر فی فلتات لسانہ وصفحات وجہہ۔
“اگر تم کوئی چیز چھپاؤگے بھی تو وہ تمہاری زبان کی لغزشوں اور چہرے کی تعبیروں سے ظاہر ہوجائے گی”۔
أفضل الزھد اخفاء الزھد۔
“بہترین زہد یہ ہے کہ زہد کو چھپاؤ”۔
ان کنت فی اِدبار والموت فی اِقبال فماأسرع الملتقی۔
“اگر تم پیچھے ہٹ رہے ہو اور پیچھے سے موت آرہی ہو تو دونوں کی ملاقات کتنی جلدی ہوگی”۔
لسان العاقل وراء قلبہ وقلب الأحمق وراء لسانہ۔
“عقلمند کی زبان اس کے قلب کی پابند ہوتی ہے اور احمق کا دل اس کی زبان کا پابند ہوتا ہے”۔
الغنی فی الغربۃ وطن والفقرفی الوطن غربۃ۔
“دیار غیر میں مالداری وطن ہے اور وطن میں فقر غریب الدیاری ہے”۔
ھلک فیّ رجلان: محب غال ومبغض قال۔
“میری وجہ سے دوطرح کے لوگ ہلاک ہوں گے: محبت میں غلو کرنے والا اور نفرت میں مجھے چھوڑنے والا”۔
توقّوا البرد فی أوّلہ وتلقّوہ فی آخرہ فانّہ یفعل فی البدن کفعلہ فی الأشجار ، أوّلہ یحرّق وآخرہ یورق۔
“شروع میں سردی سے بچو اور آخر میں اس کا استقبال کرو کیونکہ وہ بدن میں پیڑوں جیسا عمل کرتی ہے یعنی شروع کی سردی درخت کو جلاتی ہے اور آخر کی سردی سے پیڑ میں پتیاں نکلتی ہیں”۔
کلّ وعاء یضیق بما جعل فیہ الا وعاء العلم فانہ یتسع۔
“ہر برتن سامان کے لئے کم پڑ جاتا ہے)یعنی بھر جاتا ہے)سوائے علم کے برتن کے جو کہ بڑھتا ہی جاتا ہے”۔
ان لم تکن حلیماً فتحلم فانہ قلّ من تشبہ بقوم الا أوشک أن یکون منہم۔
“اگر تم بردبار نہ ہو تو کم ازکم بردباری ظاہر کرو کیونکہ اگر تم کسی کی شباہت اختیار کروگے تو قریب ہے کہ تم بھی ان کی طرح ہوجاؤ”۔
اکثر مصارع العقول تحت بروق المطامع۔
“اکثر عقلوں کی موت لالچ کی چمک کی وجہ سے ہوتی ہے”۔
من کساہ الحیاء ثوبہ لم یر الناس عیبہ۔
“جو حیاء کی چادر اوڑھ لے، لوگ اس کے عیوب کو نہیں دیکھیں گے”۔
حضرت علی ہر لحاظ سے ایک مکمل انسان تھے۔ فصاحت ، شجاعت، علم ، تقویٰ ،عدل وانصاف ، تفقہ جیسے تمام میادین میں وہ ممتاز ترین تھے۔حضور پاک کے انتقال کے بعد خلافت کے مسئلے پر جو اختلاف ہوا وہ ہم سب کے علم میں ہے۔ لیکن حضرت علی کے پہلے ہونے والے تینوں خلفاء نے حضرت علی کی پوری قدر کی۔حضرت علی حضرت ابوبکر کے زمانے میں دار السلطنت مدینہ کے قاضی تھے، یعنی آج کی اصطلاح میں دولت اسلامیہ کے چیف جسٹس تھے۔حضرت علی کی خلافت کے دوران کچھ تکلیف دہ واقعات مثلاً جنگ جمل اور جنگ صفین ہوئے اور خوارج کا ظہور ہوا اور خوارج ہی کے ہاتھوں حضرت علی کی شہادت رمضان سنہ ۴۰ہجری (۶۶۱ء) میں ہوئی۔یہ وہی خوارج ہیں جن کی اولاد آج القاعدہ اور داعش یا دولت اسلامیہ کی صورت میں اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد حضرت علی خلیفہ ہوئے ہوتے تو اسلام کی تاریخ آج کچھ اور ہوتی۔ اول تو بلا توقف امت کو تقریبا تیس سال تک ایک حاکم صدر اسلام میں ملا ہوتا ۔ امت میں یہ اختلافات نہ ہوئے ہوتے جو آج تک ہم کو پریشان کئے ہوئے ہیں اور ہمارے نصیب میں یزید اور اس جیسے درجنوں ظالم حاکم نہ آئے ہوتے جنھوں نے اسلام کی شکل کو مسخ کرکے اسلام کے نام پر جابر اور فرعونی نظام حکومت ہم پر مسلط کردیا جو آج تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ رہا ہے۔ حضرت علی کی نسل میں پیدا ہونے والے ائمۂ اطہار کا علم، تفقہ،بردباری اور ان کی قربانیاں ہم کو بتاتی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے وقت کے حکام سے ہزاروں گنا بہتر تھا۔کتنا اچھا ہوتا کہ ہماری تاریخ وہ نہ ہوتی جو حضرت علی کی شہادت کے بعد ہوئی۔شاید اس میں ہمارے لئے ایک امتحان تھا لیکن ہم اس امتحان میں ناکام رہے اور ہم نے ان ظالم حکمرانوں کو نہ صرف باقی رہنے دیا بلکہ احکام السلاطین جیسی کتابیں لکھ کر اور السلطان ظل اللہ فی الارض (سلطان زمین پر اللہ کا سایہ ہے)جیسے من گھڑت اقوال وضع کرکے ایسے حکام کو سند جواز عطا کیا۔
آج کل ایک نظم سید اقبال رضوی شارب کے حوالے سے یاہو گروپس وغیرہ میں گھوم رہی ہے۔ اس کا ایک شعر یہ ہے:
بغضِ حیدر نے بہت الجھا دیا سنّت کی ڈور
اب یہ ایسی گانٹھ ہے جسمیں سرا کوئی نہیں
میں نے اس پر مندرجہ ذیل تبصرہ انھیں گروپس پر کیا ہے: ” محترم ، یہ بھی بتادیں کہ “سنت” کے وہ کون لوگ ہیں جو بغض حیدر پر یقین رکھتے ہیں۔ یہ ایک خود ساختہ سوچ ہے اور اہل سنت پر تہمت۔ اہل سنت کے تمام گروہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے اعلی مقام اور افضلیت کے قائل ہیں۔ حضرت علی سے بغض رکھنے والا مسلمان ہو ہی نہیں سکتا ہے”۔ حقیقت ہے کہ نواصب اور خوارج کا آج کوئی وجود نہیں۔ خوارج کی ایک نئی شکل داعش کی صورت میں ضرور نمودار ہوئی ہے لیکن امت میں اس کو کوئی قبولیت نہیں ملی ہے۔
(ختم)
Comments